غزل
پرویز مانوس
تمہارا قُرب پانے سے ہوئی ہے شام مستانی
ذراسا مسکرانے سے ہوئی ہے شام مستانی
عجب خاموشیاں چھائی ہوئی تھیں چار سُو جاناں
تمہارے گُنگنانے سے ہوئی ہے شام مستانی
ستارے اوڑھ کر نکلی تُو جس دم ڈل کنارے پر
شکارے جگمگانے سے ہوئی ہے شام مستانی
رگ و پے میں سرایت کر گئی خوشبو عقیدت کی
ترے کمرے میں آنے سے ہوئی ہے شام مستانی
اداسی بن کے تاریکی نے سب کچھ ڈھانپ رکھا تھا
ترا چہرہ دکھانے سے ہوئی ہے شام مستانی
قدم رکھتے ہی محفل میں چھلک اُٹھے ہیں پیمانے
ذرا گھونگھٹ اُٹھانے سے ہوئی ہے شام مستانی
ہماری یاد میں مل کر ہجومِ شہر میں یارو
بھری محفل سجانے سے ہوئی ہے شام مستانی
بُھلا کر کُلفتیں ساری لگے جب میکدے جانے
صُراحی ٹوٹ جانے سے ہوئی ہے شام مستانی
تری آغوش میں تھا جس گھڑی میں بے خبر سویا
صدا دے کر جگانے سے ہوئی ہے شام مستانی
کبھی ویران راتوں میں ہماری قبر پر آکر
تری چادر چڑھانے سے ہوئی ہے شام مستانی
قلم تیرا چلا کچھ اس طرح مانوس صحرا میں
سُخن کے گُل کھلانے سے ہوئی ہے شام مستانی
پرویز مانوس
نٹی پورہ سرینگر
9622937142