زرعی پیداوارمیں کمی اوردرآمدات پر انحصارکی بنیادی وجہ،ذی شعورلوگ فکرمند،حکام کیلئے لمحہ فکریہ
سری نگر:۲۷،ستمبر: جے کے این ایس : کشمیر کے سرسبز و شاداب دھان کے کھیت جو بصری طور پر پُرکشش ہواکرتے تھے اور صاف وشفاف ماحول کیساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کوروزی کے علاوہ روٹی یعنی خوراک مہیا کرتے تھے، تیزی سے غائب ہو رہے ہیں ۔ ان کھیتوں کی جگہ کنکریٹ کی تعمیرات کی جا رہی ہیں۔ حالیہ کئی برسوں کے دوران ہزاروں کنال دھان کے کھیتوں کو باغات میں بھی تبدیل کیاگیا۔جے کے این ایس کے مطابق ایک میڈیا رپورٹ پریقین کریں توگزشتہ صرف 10 سالوں میںساڑھے5 لاکھ کنال سے زیادہ دھان کے کھیتوں کو تبدیل کیا گیا ہے، جس میںزیادہ ترزمین کوغیر زرعی مقاصد کیلئے استعمال کیاگیا۔زرعی زمینوں کوغیر زرعی مقاصد یعنی مکانات ،دکانات ،شاپنگ کمپلیکس یادیگر ایسے کاموں کیلئے استعمال میں لانے ایسی زمین رقبوںکوہمارے محکمہ مال کے پٹواری صاحبان بڑی آسانی سے بنجر قدیم قرار دیتے ہیں جبکہ ہم سب دیکھتے ہیں کہ غیر زرعی مقاصد وکاموں کے لئے استعمال کی گئی یہ زمین کھیت کھلیانوںکے بیچوں بیچ ہوتی ہے ۔میڈیا رپورٹ میں دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق کشمیرمیں سال2012میں، تقریباًایک لاکھ 62ہزار309 ہیکٹر اراضی دھان کی کاشت کے تحت تھی، جس میں سے2022 28 ہزار 242 ہیکٹر (ساڑھے5 لاکھ کنال)کی ہیت تبدیل کردی گئی ہے۔فی الحال، کشمیرمیںدھان کی کاشت کے تحت کل ایک لاکھ 34 ہزار67 ہیکٹر زمین ہے۔زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد میں تبدیل کرنا صرف کشمیر وادی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جموں کے خطہ تک بھی ہے۔زرعی اراضی پر ہاؤسنگ کالونیوں اور تجارتی کمپلیکس تعمیر کرنے کے رُجحان سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ جلد ہی کشمیر میں زراعت کیلئے بہت کم زمین باقی رہ جائے گی۔زرعی زمینوں کی تبدیلی پورے کشمیر میں ہو رہی ہے، جو نہ صرف حکومت کے لئے بلکہ مخلص زمینداروں اورکاشتکاروں کیساتھ ساتھ ذی شعور افرادکیلئے بھی تشویش کا باعث ہے۔ ہم ہر جگہ رہائش گاہیں بنا سکتے ہیں، یہاں تک کہ پہاڑی علاقوں میں بھی، لیکن اب جبکہ زرعی زمین بہت کم رہ گئی ہے توہمیں اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا بند کردینا چاہئے ۔ہمیں یہ احساس کرنا ہوگاکہ ہم آنے والی نسل کیلئے کیا چھوڑ کرجارہے ہیں۔کچھ سال قبل ایک اقتصادی سروے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں زرعی اراضی کو غیر زرعی سرگرمیوں کیلئے تبدیل کرنے کی وجہ سے جموں و کشمیر کے 60 فیصد لوگ دن بہ دن غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ زرعی زمینوںکا حدود اربہ یارقبہ بتدریج کم ہونے سے بڑی تعدادمیں زمیندار،کاشتکار اوراسے جڑے لوگ بے روز گار ہوتے جارہے ہیں ،کیونکہ کھیتی باڑی اورباغبانی جموں وکشمیر بالخصوص وادی میں 60فیصد سے زیادہ آبادی کیلئے بالواسطہ یابلاواسطہ طورپر روزگار کاذریعہ رہاہے ۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن لازمی ہے،اسلئے ہمیں درآمدی چیزوں پر انحصار کرنے کیلئے اپنی زرعی پیداوارکوبڑھاناچاہئے ۔ہمیں اسبات کافوری احساس کرنا ہوگاکہ جب تک ہم فصلوںبشمول دھان ،گندم اور سبزیوں کی پیداوارمیں خاطر خواہ اضافہ نہیں کریں گے ،تب تک ہم سالانہ کروڑوں اربوں روپے محنت کی کمائی درآمدی اشیاء اورچیزوں پر صرف اورخرچ کرتے رہیں گے ،اورغربت کی شرح میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتاجائیگا۔
اُترسواننت ناگ میں ریچھ نمودار
خاتون کوکیا گھر کے باہرزخمی
لوگ محکمہ وائلڈلائف سے نالاں
سرینگر:۲۷،ستمبر: جے کے این ایس : جنوبی کشمیرکے ضلع اننت ناگ کے اُترسو گائوںمیں منگل کی صبح اُسوقت خوف وہراس کی لہردوڑ گئی ،جب یہاں ایک خونخوار ریچھ نے ایک خاتون پرحملہ کرکے اُسے شدیدزخمی کردیا۔جے کے این ایس کے مطابق اُترسواننت ناگ میں منگل کی صبح گھر کے باہر کام کررہی ایک خاتون شمیمہ بیگم زوجہ مشتاق احمدحجام پر ایک ریچھ نے اچانک حملہ کردیا۔جنگلی درندے کے اچانک حملے میں خاتون شدیدزخمی ہوگئی ،اوراُس کی چیخ وپکار سن کر اُسکے اہل خانہ اورہمسایے دوڑے دوڑے گھر وں سے باہر آئے ۔لوگوںکونزدیک آتے دیکھ کر ریچھ خاتون کوزخمی کرکے وہاں سے بھاگ گیا۔زخمی خاتون کوفوری طورپرعلاج ومعالجہ کیلئے سب ڈسٹرکٹ اسپتال شانگس پہنچایاگیا،جہاں وہ زیرعلاج ہے ۔مقامی لوگوںنے محکمہ وائلڈ لائف پرلاپرواہی برتنے کاالزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ اسے پہلے بھی یہاں جنگلی جانور نمودار ہوتے رہے ہیں لیکن متعلقہ محکمہ کے اہلکاروںنے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی ۔انہوںنے کہاکہ ریچھوںنے حالیہ دنوںمیں اُترسو اورنزدیکی دیہات میں مکئی کی فصل کوکافی نقصان پہنچایا لیکن ان جنگلی درندوں پرقابو پانے کیلئے محکمہ وائلڈ لائف نے کوئی بروقت کارروائی نہیں کی ۔
عالمی یوم سیاحت:کشمیر یونیورسٹی میں عالمی پروگرام بعنوان ’سیاحت پر نظر ثانی‘منعقد
سیاحتی ودستکاری صنعت کی فعالیت پر اظہارخیال
کشمیر یونیورسٹی اور محکمہ سیاحت کے درمیان ’فعال شراکت داری‘ کی ضرورت:سرمدحفیظ
سرینگر:۲۷،ستمبر: جے کے این ایس : کشمیر یونیورسٹی نے منگل کو عالمی یوم سیاحت ’سیاحت پر نظر ثانی‘کے عنوان سے منایا۔کمشنر سیکرٹری محکمہ سیاحت سرمد حفیظ اس موقع پر مہمان خصوصی تھے، جبکہ رجسٹرار کشمیر یونیورسٹی ڈاکٹر نثار احمد میر اور محمود اے شاہ ڈائریکٹر دستکاری جموں وکشمیر مہمانان ذی وقارکے بطورموجود تھے۔جے کے این ایس کے مطابق اس پروگرام کا اہتمام یونیورسٹی کے محکمہ سیاحت، مہمان نوازی اور تفریحی مطالعہ نے ہمالیائی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تعاون سے کیا تھا۔اپنے صدارتی خطاب میں، کمشنر سیکرٹری محکمہ سیاحت سرمد حفیظ نے جموں و کشمیر کی وسیع سیاحتی صلاحیت اور محکمہ سیاحت کی جانب سے پوری یونین ٹریٹری میں غیر استعمال شدہ سیاحتی مقامات کو فروغ دینے کیلئے کئے جانے والے نئے اقدامات پر روشنی ڈالی۔انہوںنے کشمیر یونیورسٹی اور محکمہ سیاحت کے درمیان ’’فعال شراکت داری‘‘پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں ہے جو سیاحت کے تشت میں اتنی پیش کش کر سکے۔تاہم، انہوں نے کہا کہ اداروں اور نوجوان طلباء کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تعاون کریں اور مشترکہ طور پر سیاحت کے شعبے کے فروغ میں فرق پیدا کریں جس سے ہر فرد کو بالواسطہ یا بلاواسطہ تشویش لاحق ہو۔سرمد حفیظ نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر پائیدار سیاحت شروع کرنے اور اپنی کچھ بھرپور روایات کو بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے سیاحتی سرکٹ پر بھی ایسا ہی پیش کرتا ہے۔کشمیر یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر نثار اے میر نے کہا کہ یونیورسٹی انسانی وسائل پیدا کرنے کے لئے پرعزم ہے جس سے سیاحت کی صنعت کو فائدہ پہنچے گا۔ انہوں نے سیاحت کے سکریٹری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ یونیورسٹی کے ٹورازم طلباء کی سیاحت کے پیشہ ور بننے کے سفر کو فروغ دینے کے لیے ان کی تربیت اور مہارت کو بہتر بنائیں۔اپنے خصوصی خطاب میں، ڈائریکٹر دستکاری جموں وکشمیر محمود اے شاہ نے جموں و کشمیر میں’سیاحتی مصنوعات کو متنوع بنانے اور سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات کی کمی کو دور کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کرافٹ ٹور اب سیاحوں کو یونین ٹریٹری کی’ہنڈی کرافٹ اور ہینڈلوم کی دولت‘ کو تلاش کرنے کے لیے ایک پیکیج کے طور پر پیش کئے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض اے قریشی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور سیاحت اور مہمان نوازی کے شعبوں میں صنعتی تعلیمی تعاون پر زور دیا تاکہ تربیت یافتہ سیاحتی پیشہ ور افراد تیار ہوں۔صدرہمالیائی ویلفیئر آرگنائزیشن مشتاق اے پہلگامی اور صدر ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن آف کشمیر فاروق اے کاٹھو نے بھی ڈائس کا اشتراک کیا اور صنعت کو ترقی کی راہ پر آگے لے جانے کے لئے مختلف سیاحت کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان شراکت کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ڈاکٹراعجاز اے خاکی نے خطبہ استقبالیہ اور اظہار تشکر پیش کیا جبکہ ڈاکٹر زبیر احمد نے خصوصی خطاب کیا۔